گلگت بلتستان میں بڑھتے ہوئے جان لیو ا حادثات

گلگت اور بابوسر میں دو ٹریفک حادثات میں پی پی رہنما محمد موسی کی پوتی سمیت تےن افراد جاں بحق اور اٹھارہ زخمی ہو گئے۔ ریسکیو1122 اور پولیس ذرائع کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر وسابق چیئرمین محمد موسی ساکن خومر گلگت کی گاڑی کا اپنی فیملی کے ہمراہ سیاحتی مقام نلتر بالا سے گلگت کی طرف آتے ہوئے چودہ میگاواٹ برینو موڑ نزد نومل کے قریب بریک فیل ہوئی جس کی وجہ سے گاڑی الٹ گئی ، گاڑی میں محمد موسی کی پوتی یزل دختر آصف جاں بحق ہوئی جبکہ محمد موسی اور ان کی فےملی کی دیگر دو خواتین معمولی زخمی ہوئیں،گاڑی کو ان کا پولیس گن مین چلا رہا تھا۔گلگت سے ایک سو بچاس کلو میٹر دور بابوسر روڈ جل تھانہ کے قریب سیاحوں کی دو گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئیں،المناک حادثے میں ایک بچی سمےت دوافراد جاں بحق اور پندرہ زخمی ہو گئے۔حادثہ اتوار کے سہہ پہر ساڑھے چار بجے پیش آیا۔بدقسمت گاڑیوں میں ایک شاہراہ قراقرم کی جانب سے بابوسر جبکہ دوسری ویگو گاڑی بابوسر کی جانب سے شاہراہ قراقرم کی طرف جا رہی تھی۔دیامر پولیس ذرائع کے مطابق آمنے سامنے سے ٹکرانے کے بعد دونوں گاڑیاں تھک نالے میں گر گئیں اور بری طرح تباہ ہو گئیں ۔حادثے کی اطلاع ملنے کے بعد ریسکیو کی ٹیمیں جائے حادثہ پر پہنچ گئیںاور جاں بحق اور زخمیوں کو ریسکیو کر کے ریجنل ہیڈ کواٹر ہسپتال چلاس پہنچا دیا جہاں پر زخمیوں کا علاج کیا جا رہا ہے ۔گزشتہ دنوں شمالی گلگت بلتستان کے علاقے میں ایک سڑک حادثے میں پانچ سیاح جاں بحق اور ایک زخمی ہو گیا تھا۔ سیاحوں کی جیپ اس وقت گہری کھائی میں جا گری جب ڈرائیور نے پہاڑی علاقے میں خستہ حال سڑک پر گاڑی موڑنے کی کوشش کی ۔جاں بحق ہونے والے ایک ہی خاندان کے پانچ افراد تھے، زخمی افراد کو قریبی اسپتال منتقل کردیا گیا، جہاں اس کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے سیاحوں اور مسافر گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور مختلف علاقوں میں ٹریفک حادثات میں اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے صوبائی سیکرٹری ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کو ہدایت کی ہے کہ ٹریفک مینجمنٹ کیلئے ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے تاکہ ٹریفک حادثات پر قابو پایا جاسکے۔وزیر اعلی نے ہدایت کی کہ پبلک ٹرانسپورٹ سمیت سیاحوں کیلئے استعمال کی جانے والی خصوصی ٹرانسپورٹ گاڑیوں کی مکمل فٹنس، ڈرائیونگ لائسنس اور دور دراز علاقوں میں سفر کرنے والی گاڑیوں میں دو ڈرائیورز کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے۔ سیاحوں اور گلگت بلتستان کی شاہراہوں پر سفر کرنے والے ڈرائیورز کیلئے ضروری ٹریفک نشانات آویزاں کئے جائیں اور مختلف مقامات کے مطابق سپیڈ لمٹ پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنائیں۔ ٹریفک حادثات کی روک تھام اور ٹریفک مینجمنٹ کیلئے ایس او پیز پر عملدرآمد کے حوالے سے خصوصی عوامی آگاہی مہم شروع کی جائے۔ گلگت بلتستان میں جان لیوا حادثات معمول بنتے جارہے ہیں۔ ےہاں سڑکوں کے سانحات معمول کی خبر ہیں۔ ریسکیو حکام کا کہنا ہے کہ صرف جولائی 2023 میں، کم از کم 41 افراد بشمول سیاح پورے خطے میں سڑک کے حادثات میں ہلاک ہوئے۔گلگت بلتستان کی سڑکیں بالکل خستہ حال ہیں۔گلگت بلتستان کے محکمہ ریسکیو 1122 کے مطابق گزشتہ سال جنوری سے جولائی تک سڑک حادثات میں کم از کم 77 افراد جاں بحق ہوئے اور جولائی میں تو 41 افراد ہلاک ہوئے۔ ڈرائیوروں کو سڑک کی خستہ حالی کی وجہ سے پہاڑی علاقے میں گاڑی چلاتے وقت اضافی احتیاط کرنی چاہئے ۔ٹریفک حادثات کو کم کرنے اور کنٹرول کرنے کے لیے جی بی میں دیامر ضلع کے بابوسر کے علاقے میں داخل ہونے والی گاڑیوں کی رفتار کو روکنا اور چیک کرنا شروع کر دیاگیا ہے۔زیادہ تر سڑک حادثات میں غیر مقامی ڈرائیور سیاحوں کے گروپوں کے ساتھ شامل تھے جو کچی سڑکوں پر موجود گڑھوں کے ساتھ ساتھ ان کے تیز موڑ اور خطرناک موڑ سے ناواقف تھے۔کچھ عرصہ قبل بابوسر پاس کے قریب گیتی داس علاقے میں سیاحوں کے ایک گروپ کو لے جانے والی ایک گاڑی بے قابو ہو کر کھائی میں گرنے سے کم از کم آٹھ افراد ہلاک اور نو زخمی ہو گئے تھے۔ سیاحوں کو مشورہ دیاگیا ہے کہ وہ گیس سے چلنے والی گاڑیوں کا استعمال نہ کریں کیونکہ بابوسر ٹاپ کے قریب آخری حادثے میں، کار کے ٹکرانے کے بعد گاڑی میں آگ لگ گئی، جس سے آٹھ افراد جھلس کر ہلاک ہو گئے۔مقامی ریسکیو ماہرین اور متعلقہ شعبہ جات کے افسران کاکہنا ہے کہ ان حادثات کے پیچھے تیز رفتاری اور اوور ٹیکنگ حادثات کی اہم وجہ ہےں ۔ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں سالانہ تےس ہزار سے زائد افراد کی موت ٹریفک حادثات میں ہوتی ہے اور اوسطا روزانہ پندرہ افراد ٹریفک حادثات میں جان سے جاتے ہیں۔ اسی تحقیق کے مطابق دنیا کی ساتویں خطرناک روڈ قراقرم ہائی وے پر ٹریفک حادثات کی ایک وجہ رفتار کی مقررہ حد سے تیز گاڑی چلانا اور سیٹ بیلٹ نہ باندھنا ہے۔ پاکستان ٹریفک حادثات کی عالمی رینکنگ میں ستاسٹھویں نمبر پر ہے اور متوفین کی اوسط نوجوانوں یا ادھیڑعمر افراد کی ہے2014 سے2017 تک قراقرم ہائی وے پر778 ٹریفک حادثات رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس تحقیق کے لیے منتخب 475 ڈرائیوروں میں سے پچاس فیصد کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں تھا جبکہ پنتالےس فیصد سے زائد ڈرائےوروں نے بتایا کہ دوران سفر وہ نشے کا استعمال کرتے ہیں۔پولیس حکام نشئی ڈرائیورز کو چیک نہےں کرتے ، پےنسٹھ فیصد سے زائد ڈرائیور حضرات سیٹ بیلٹ نہیں باندھتے۔ قراقرم ہائی وے پرحادثات پرقابوپانے کیلئے وزیراعلی گلگت بلتستان نے وزیراعظم شہبازشریف کومراسلہ ارسال کیا تھا۔ مراسلے میں وزیراعلی گلگت بلتستان گلبرخان نے لکھا کہ قراقرم ہائی وے پر ٹریفک حادثات میں قابو پانے کیلئے موٹر وے پولیس کی تعیناتی عمل میں لائی جائے۔حقائق کی روشنی میں مستقبل میں ٹریفک حادثات سے بچنے کےلئے اقدامات کیے جائیں۔قراقرم ہائی وے میں بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کی وجہ سے قیمتی انسانی جانوں کا نقصان ہورہا ہے۔وزیراعلی گلگت بلتستان کاکہنا تھا کہ حادثات کے باعث گلگت بلتستان میں سیاحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔قرقرام ہائی وے پر محفوظ سفر کو یقینی بنانے کیلئے موٹر وے پولیس کی تعیناتی لازمی ہے۔گلگت بلتستان میں حادثات کی بڑھتی ہوئی شرح پر بارہا تشوےش کا اظہار کےا جا چکا ہے‘ شاہراہ قراقرم پر بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کی روک تھام کے لیے اقدامات پر غور ہوتا رہا ،حادثات کا شکار بیشتر افراد ان علاقوں کی سیر کرنے والے سیاح ہیں،ڈرائیورز کھٹن راستوں پر ڈرائیونگ کی مکمل مہارت نہیں رکھتے،اس لےے سیاحوں کو دشوار گزار راستوں کے ممکنہ خطرات سے پیشگی خبردار کیا جانا چاہےے ، حادثات کی روک تھام کے لیے گلگت بلتستان کی اہم شاہراہوں پر موٹر وے پولیس تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا‘حادثات ہونے کے خطرات والی جگہوں پر سائن بورڈز نمایاں آویزاں کیے جانے کا اعلان بھی کےا گےا ،اہم شاہراہوں پر سائن بورڈز اور حفاظتی دیواروں کی تعمیر یقینی بنانے کی بات کی گئی ،ےہ درست ہے کہ سیاحت کا شعبہ پاکستان کی معیشت کےلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے،سیاحت کے فروغ کےلئے ان علاقوں کو سیاحوں کے لیے محفوظ بنانا ضروری ہے۔حادثات کی اےک بڑی وجہ کھٹارہ بسےں بھی ہےں قراقرم ہائی وے نہ صرف طویل بلکہ یہ انتہائی تنگ ہے جس پر خطرناک موڑ بھی ہیں۔ خستہ حال بسیں کسی صورت اس پر خطر راستے پر سفر کے لیے محفوظ نہیں ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں پہاڑی علاقوں میں سڑکوں کی حفاظت کے لیے الگ پالیسیاں بنائی جاتی ہیں لیکن پاکستان میں ایسا کوئی طریقہ کار موجود نہیں۔ ٹرانسپورٹ کمپنیاں بسوں کی مرمت یا دیکھ بھال کا خیال نہیں رکھتیں اور مسافروں کی قےمتی جانوں کو خطرے میں ڈال دیتی ہیں۔لوگ رشوت دے کر گاڑیوں کے فٹنس سرٹیفکیٹ اور ڈرائیونگ لائسنس بنوا لیتے ہیں۔بند کی گئی گاڑےاں کچھ عرصے بعد سڑکوں پر واپس آ جاتی اور حادثات کا باعث بنتی ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق سڑکوں پر ہونے والے پچاسی فیصد حادثات کے متاثرین کا تعلق متوسط اور غریب خاندانوں سے ہوتا ہے۔ ان حادثات کی بنیادی وجوہ میں پر ہجوم سڑکیں، گاڑیوں کی ناقص حالت ‘ ڈرائیوروں کی نیند پوری نہ ہونا اور منشیات کا استعمال شامل ہیں۔زیادہ تر واقعات میں حادثات انسانی غلطیوں کی وجہ سے ہوتے ہیں۔لہذا ڈرائےورز حضرات کو اس کا خےال رکھنا چاہےے کہ وہ اکےلے نہےں ان کے ساتھ درجنوں زندگےاں ہےں ان کی نااہلی سے ےہ زندگےاں خطرے سے دوچار ہو سکتی ہےں ۔