عاشق فراز
خپلو سے سلترو دم سم کی جانب سفر کے دوران جہاں کچھ حصہ دریائے شیوق کے ساتھ سفر کرنا پڑتا وہیں پر پھر ایک دم دریائے شیوق کو چھوڑ کر سلترو سیاچن اور ہوشے سے آنے والے مشترکہ پانی کے کنارے کنارے والی سڑک کی راہ لینی پڑتی ہے۔ اس کا آغاز غورسے سے ہوتا ہے جو سیاچن اور ہوشے کے پانیوں کی وجہ سے ایک لکیر کی مانند رہ گیا ہے۔ اس متذکرہ دریا نے غورسے اور سیلنگ کے درمیان واقع سیکنڑوں کنال زمین کو تاراج کرکے بنجر بنا دیا ہے۔ غورسے کے بارے میں تو ازراہ مذاق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کو اگر عمودی طور پر کھڑا کیا جائے تو ایک سرا زمین پر اور دوسرا جاکر آسمان کو چھوجائے گا۔غورسے کے بعد وادی کا رخ پھر تبدیل ہوتا ہے اور پھر ہلدی گائوں سے سلترو سیاچن کا علاقہ شروع ہوتا ہے۔ ہلدی گائوں کئی لحاظ سے منفرد اور ممتاز ہے۔ تاریخ میں مذکور ہے کہ یبگو خاندان کا پھڑوا کے بعد اصل پایہ تخت ہلدی میں تھا۔ اور وہاں سے پندرھویں صدی عیسوی میں سلیم الدے کے عہد میں راجدھانی خپلو منتقل ہوگئی تھی۔ ہلدی میں دریا کے کنارے ایک ٹیلے پر اب بھی قدیمی قلعے کے آثار منہدم دیواروں اور پتھروں کے ڈھیر کی شکل میں موجود ہے ۔ ہلدی میں ایک جگہ پتھروں پر کندہ تصاویر اور سنگی نقوش بھی موجود ہیں جو اس جگہ کی قدامت اور اہم گزرگاہ ہونے کی علامت ہے۔ان سب سے بڑھ کر ہلدی تصوف اور شعر و سخن کی بلند مرتبہ ہستی بوا جوہر کی جائے پیدائش اور مدفن ہے۔ ان کے مزار اقدس میں لگی تختی کے مطابق بوا جوہر کے پردہ فرمانے کی تاریخ 1901 سے لیکر 1905 کے درمیان کی اندازا بیان کی گئی ہے۔ بلتستان میں جہاں جہاں بھی پرانے آستانے ہیں وہ روایتی طرز تعمیر کے تحت بنائے گئے ہیں اور اب بھی بزرگ ہستیوں کے آستانے اس روش کے تحت بنائے جارہے ہیں۔ آغا علی موسوی کا مقبرہ حسین آباد سکردو اور شیخ غلام حسین سحر کا مزار اقدس چھورکا شگر اسی روایتی طرز تعمیر کی تازہ ترین مثالیں ہیں۔ لیکن صد افسوس کہ بوا جوہر کا مقبرہ سیمنٹ اور سریا سے بنانے کی کوشش کی گئی ہے جو تاحال مکمل نہیں۔بوا جوہر کی شاعری بحر طویل کی صورت میں موجود ہے جن کی تعداد شاید چھبیس تک ہیں۔ ممتاز محقق محمد حسن حسرت نے 2015 میں جوہر بلتستان کے نام سے بوا جوہر کی شخصیت و آثار کو تربیب و تدوین کیا ہے۔ اس کتاب میں حسرت صاحب نے دس کے قریب بحر طویل جمع کیا ہے نیز انہوں نے بوا جوہر کے فنی محاسن پر بھی صائب تبصرے کیا ہے۔ انہوں نے کتاب کے صفحہ 31 میں ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے جس کے مطابق ایک دفعہ بلتستان میں قحط پڑا تو اس سے بو جوہر بھی بری طرح متاثر ہوا اور انہوں نے خپلو کے راجہ حاتم خان حاتم کے نام ایک قطعہ لکھ کر بھیجا۔ حسرت صاحب کے مطابق راجہ صاحب یہ قطعہ پڑھ کر لرز اٹھے اور مناسب امداد فراہم کی۔ حسرت صاحب نے بلتی زبان میں قطعہ بھی دیا ہے۔میری خوش قسمتی رہی کہ پچھلے کچھ سالوں سے محترم سید علی سے تعلق بنا ہے۔ سید علی صاحب میر عارف کی دختر نیک اختر شرف النسا جو میر مختار کے بیٹے میر اسحاق کے ساتھ بیاہی گئی تھی اس کی اولادوں سے ہے۔ سید علی صاحب ہیڈ ماسٹر ریٹائرڈ ہوئے ہیں اور چھوار چھوربٹ کے رہائشی ہیں۔ نہایت حلیم طبع، عاجزانہ مزاج اور علم و ادب سے معطر ہیں، تاریخ ، تصوف، آرکیالوجی اور مذہبی تعلیم کے شناور ہیں حتاکہ بلتی زبان ایگے کا بھی خوب علم رکھتے ہیں۔ گوکہ خاندانی طور پر میر واعظ ہیں مگر کسی بھی قسم کے تصنع اور تکلف سے بالکل پاک ہیں۔ انہوں نے تصوف و سلوک کے حوالے سے کتابیں بہت جمع کر رکھی ہیں خاص طور پر مخطوطات بڑی تعداد میں ان کے پاس محفوظ ہیں۔
سید علی صاحب نے بوا جوہر کے ہاتھوں لکھا ہوا ایک خط جو راجہ خپلو کو بھیجا گیا ہے وہ ازراہ کرم مجھے مطالعہ کے لئے فراہم کیا ہے۔ یہ خط فارسی میں ہے اور ایک کالمی سائز کے قطعہ ورق پر لکھا گیا ہے۔یہ خط بھی راجہ صاحب کو بغرض امداد لکھا گیا ہے ۔ اس کی تفصیلات پر پھر کبھی بات کی جائے گی۔بوا جوہر کے تمام کلام میں مرکزی حیثیت مدحت پنجتن پاک ، دنیا کی ناپائیداری اور تزکیہ نفس کو حاصل ہے جو کہ تصوف کے رنگ میں ہے۔میر تقی میر نے کیا خوب کہا ہے۔
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
ہلدی کے بعد اگلا گائوں تھگس ہے یہ بھی قراقرم کے پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع ایک روایتی گائوں ہے۔ پہاڑی نالے سے آنے والا برفانی پانی تھگس گائوں کو تقسیم کرتا ہے۔ گائوں ڈھلوانی سطح پر ہے جہاں زینہ زینہ شکل کے کھیت اور خوبصورت خوبانی کے باغات ہیں۔گائوں میں ایک عظیم الشان خانقاہ اور اس کے پہلو میں دو خوبصورت آستانے موجود ہیں۔خانقاہ کا ڈیزائن اسی طرز کا ہے جو روایتی طور پر بلتستان میں ہر جگہ ہے یعنی پہلے ایک بلند برآمدہ اور اس کے بعد خانقاہ کے مرکزی حال کا صدر دروازہ ہوتا ہے۔ دو اور دروازے صدر دروازے کے دونوں اطراف میں بنائے جاتے ہیں۔ صدر دروازے کی چوکھٹ کی پیشانی پر عموما فارسی میں قطعہ کی صورت میں خانقاہ کی تعمیر کی تاریخ اور ماہر کاریگروں کا تذکرہ ہوتا ہے۔ مرکزی ہال کافی بڑا اور اونچی چھت کا ہوتا ہے جس میں مختلف جیومیٹری کے ڈیزائن اور نقش و نگار بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ اندرونی چھت کے ایک خاص ڈیزائن کا نام حاتم بند ہے جو اکثر خانقاہوں میں بنایا جاتا ہے۔ چھت کو سہارا دینے کے لئے سالم لکڑی کے گول ستون جن کی دائروی موٹائی کافی زیادہ ہوتی ہے نصب کئے جاتے ہیں۔ خانقاہ کی سب سے بڑی پہچان اس کے مرکزی ہال کے دو اطراف میں تزکیہ نفس، ذہنی استغراق اور تفکر ذات کے لئے تنہائی فراہم کرنے کے لئے مراقبہ خانے بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ انہیں مقامی بلتی زبان میں چلہ کھوڑو کہا جاتا ہے۔ خانقاہ کی بیرونی دیواریں لکڑی کے ایک خاص طرز تعمیر جو ٹھٹھر کے نام سے مشہور ہے کے تحت بنائی جاتی ہیں جن کے اوپر چکنی مٹی کا موٹا پلستر چڑھا دیا جاتا ہے۔خانقاہ کے اوپر چھت کے درمیان لکڑی کا ایک خاص گنبد اور اس پر کلس لگا ہوا ہوتا ہے جسے عموما تبتی ٹاور کہتے ہیں لیکن میں نے کسی بھی تبتی طرز تعمیر والی عمارت کی تصویر میں یہ گنبد نہیں دیکھا ہے۔ سری نگر کشمیر میں حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی سے منسوب مسجد میں بھی اسی طرز کا گنبد بنا ہوا ہے۔الغرض ذکر تھگس اور ژھینو کی خانقاہوں کا ہورہا تھا، تھگس والی خانقاہ کی اہمیت اس لحاظ سے بھی زیادہ ہے کہ اس کے پہلو میں میر عارف اور میر اسحاق دفن ہیں اور ان کے منفرد ڈیزائن کے چھوٹے چھوٹے آستانے مرجع خلائق ہیں۔میر عارف اور میر ابوسعید دونوں بھائی تھے اور وہ اٹھارویں صدی عیسوی میں کشمیر سے بلتستان تشریف لائے اور دونوں میر شمس الدین عراقی کے اخلاف سے تھے۔ میر عارف تھگس میں مقیم رہے جبکہ میر ابوسعید نے کریس میں جاکر قیام کیا۔ جبکہ دوسری جانب میر اسحاق میر مختار اخیار کے بیٹے تھے اور کریس سے یہاں تھگس آکر آباد ہوئے اور وہ میر عارف کے داماد تھے۔ میر عارف نے تھگس خانقاہ تعمیر کی ہے۔جب ہم 20 ستمبر 2024 کو تھگس خانقاہ پہنچے تو اس میں کچھ تجدیدی کام ہورہا تھا۔ بیرونی دیواروں کا پرانا پلستر اتار دیا گیا تھا نیز وہاں کے معززین نے بتایا کہ چھت کی بوسیدہ لکڑی کو تبدیل کرنے کا بھی پلان ہے۔ یہ دیکھ کر سخت کوفت ہوئی کہ میر عارف اور میر اسحاق کے خوبصورت آستانے جو لکڑی سے بنائے گئے تھے اور بلتستان کی آرکیٹکچر کے شاندار نمونہ تھے ان کی حالت بگاڑ دی گئی ہے۔ نہ جانے کس ارسطو نے صلاح دی ہے اور کس نے دام و درم فراہم کیا تھا کہ دونوں آستانوں کی شاندار ڈیزائن والی چھت ادھیڑ کر اس میں لوہے کی چادریں ڈال دی گئی ہیں۔ مزید ستم یہ کہ دیواروں پر لگی ہوئی منفرد ڈیزائن کی جالیاں اتار کر پلائی ووڈ کی مشینی طرز کی مصنوعی جالیاں اس میں نصب کی گئی ہیں۔ ستم بالائے ستم بغیر کسی سوچ بچار کے دونوں آستانوں پر سبز رنگ پھیر دیا گیا ہے۔ تاریخی اور مذہبی عمارتوں کی ٹوٹ پھوٹ یقینی امر ہے اور اس میں تجدیدی کام بھی لازم ہے مگر اس کے لئے ٹھیکہ یا ٹارگٹ اپروچ سے ہٹ کر ان عمارتوں کے طرز تعمیر اور تاریخی اہمیت کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ ان عمارتوں پہ بنے ہوئے ڈیزائن اور تعمیراتی خدو خال کے پیچھے ایک وسیع تاریخ اور ثقافت پنہاں ہے جو ہماری تہذیبی ورثہ کی بڑی نشانی ہے۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرز کی عمارتوں کی بحالی اور تجدیدی کام میں حد درجہ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اصل صورت میں بگاڑ پیدا نہیں ہوں۔ اس حوالے سے AKCSP نے کچھ قلعے ، خانقاہیں اور آستانے بحال کر کے تعمیراتی ورثہ کی اہمیت واضع کی ہے یوں اس طرح کے تجدیدی کاموں کے لئے اسٹینڈرڈ گائیڈ لائن فراہم کی۔تھگس بظاہر اوسط درجے کا ایک گائوں ہے لیکن گزشتہ چند سالوں سے اس کی تاریخی اہمیت کچھ اور نظر آرہی ہے۔ پرانے منہدم مکانات اور کھیتوں کی کھدائی کے دوران یہاں سے طرح طرح کے artifacts ملے ہیں۔ان میں Tibetan beads، مختلف ڈیزائن کے زیورات ، پرانی ہاتھ کی لکھی گئی کتابیں، منکے، برتن غرض قسم قسم کی چیزیں شامل ہیں جس سے لگتا ہے کہ یہ گاں قدیم اور اہم تہذیب کا حامل رہا ہے۔تھگس سے تھوڑے سے فاصلے پر دم سم جانے والی سڑک کے کنارے ایک اور شاندار خانقاہ نظر آتی ہے یہ ژھینو گائوں ہے۔ ژھینو بھی تھگس کی طرح کا چھوٹا سا دیہاتی گائوں ہے جس کی جغرافیائی ساخت بالکل تھگس کی جیسی ہے۔ گائوں کے پچھواڑے میں بلند پہاڑی سلسلہ ہے اور یہاں سے لیکر آگے سلترو اور خورکنڈو تک کی پہاڑیاں ایک الگ خوبصورتی لئے ہوئی ہیں۔ عمودی چٹانیں بالکل نوکیلی اور گرینائٹ کی بنی ہوئی ہیں اور اتنی صاف ہیں کہ لگتا ہے بادلوں نے روز دھو دیا ہو۔ ژھینو گائوں کے پہاڑی درہ میں گرینائٹ کا ایک ابھرتا ٹاور بڑی تمکنت کے ساتھ جلوہ گر ہے۔یہ گرینائٹ کا ابھار بالکل ٹرانگو ٹاور کی طرح لگتا ہے اور اس کے پہلو سے گلیشیئرز کا ٹھنڈا پانی ایک پرشور نالے کی شکل میں گائوں کی طرف بہہ نکلتا ہے۔اسی نالہ کے کنارے پر بڑے بڑے پتھروں کے پلیٹ فارم کے اوپر ژھینو خانقاہ ایک شان سے نمایاں نظر آتی ہے۔سڑک کی طرف سے خانقاہ کا جو مغربی حصہ نظر آرہا ہے اس میں مٹی اور چونے کا مشترکہ پلستر نہایت دیدہ زیب لگ رہا ہے۔ اسی دیوار کے درمیان میں دو کھڑکیاں ہیں اور ان کے اوپر پانچ جالی دار درمیانے سائز کی منقش روشن دان بنے ہوئے ہیں۔ خانقاہ کا برآمدہ دیکھنے کے لائق ہے یہ شمالا جنوبا پھیلا ہوا ہے۔ اس کا وہ حصہ جو باہر کی طرف نکلا ہوا ہے اس میں چودہ درمیانے سائز کے ستون لگے ہوئے ہیں جن کے فرش اور چھت والے حصوں پر لکڑی کی جعفری اور مخصوص ڈیزائن بنے ہوئے ہیں۔ برآمدے کا اندرونی چھت کافی اونچا اور مکمل لکڑی کا بنا ہوا ہے اس کا وہ حصہ جو خانقاہ کے مرکزی دروازے کے بلکل اوپر واقع ہے اس میں ختم بام ہے جبکہ اس کے دونوں اطراف کے حصوں میں بھی لکڑی کے تختوں سے چوکور ڈیزائن بنا کر ان میں کالے رنگ کی لکیریں ڈال دی گئی ہیں۔خانقاہ کا صدر دروازہ اور متصل دیگر دو دروازوں کی چوکھٹوں میں نہایت باریک اور دیدہ زیب کام ہوا ہے۔ ان میں جھری نکال کر پھول دار ڈیزائن اور مختلف جیومیٹری کے نقوش بنائے گئے ہیں جبکہ چوکھٹوں کی پیشانی کے اوپر نصف قرص کی شکل کی لکڑی لگا کر پھول بوٹیوں کے ساتھ فارسی میں سال تعمیر، کاریگر اور پنجتن پاک کے نام کندہ ہیں۔مرکزی ہال میں داخل ہوتے ہی دائیں بائیں طرف مراقبہ خانے نظر آئیں گے جن کے فرش پر بچھے غالیچے اور دیگر انتظام سے لگتا تھا کہ سود و زیاں سے پرے کچھ صاحبان حال من لاگے یار فقیری میں میں اب بھی محو سفر ہیں۔چھ مخروطی بلند لکڑی کی ستونوں نے خانقاہ کے چھت کو سہارا دیا ہوا ہے اور اندرونی چھت کی زیبائش اور ڈیزائن دیکھنے کے قابل ہے۔خانقاہ کے احاطے میں جو اب ویران ہے اس میں کئی قبریں موجود ہیں اور یہاں پر دو مقبرے ہیں جو نہایت خستہ حال ہیں۔ یہ لکڑی کے بنے ہوئے ہیں اور لگتا ہے کہ کوئی محترم ہستیاں یہاں مدفون ہیں۔ دونوں مقبروں کی لکڑی بوسیدہ ہوگئی ہے اور دونوں کی چھتیں منہدم ہیں، ایک مقبرے میں لگی ہوئی لکڑی میں نہایت دیدہ زیب نقش و نگار بنے ہوئے ہیں جبکہ دوسرے میں سادہ انداز سے لکڑی لگائی گئی ہے۔ ان پر تجدیدی کام کی اشد ضرورت ہے۔گائوں کی پہاڑی میں جو درہ ہے اس کے آغاز میں بلندی پر پہاڑ کے ساتھ تھوڑی سی مسطح زمین ہے وہاں پر کسی پرانی عمارت کے آثار پائے جاتے ہیں۔ یہاں کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ مانچو کا قلعہ تھا جو اب پتھروں کے ڈھیر کی شکل میں موجود ہے۔ تزویراتی اہمیت کا حامل یہ قلعہ اس قدیم باقیات کا حصہ ہے جب اس علاقے میں الگ الگ خودمختار قبائل کی حکومتیں قائم تھیں۔