عارف جمیل
پاکستان کی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو کا کردار متنازعہ ہی رہے گا لیکن انکی سیاسی بصیرت او ر سانحہِ سقوط ِمشرقی پاکستان تک سیاسی منظرنامے پرانکی شخصیت کا سحر عوامی سمندر کا ایسا بہاﺅ لیکر آیا کہ مغربی پاکستان میں جو انقلاب برپا ہوا اسکے اثرات نے مشرقی پاکستان کے سیاست دانوں اور غیر ملکی سازشوں کے پول کھول کر رکھ دیئے۔زیڈ اے بھٹو خاندانی جاگیردار تھے۔والد شاہنواز بھٹو کے محمدعلی جناح سے گہرے مراسم تھے اور قیام پاکستان کے وقت بانی ِپاکستان کے مشور ے سے انہوں نے ریاست جونا گڑھ میں ہی اہم سیاسی ذمہ داریاں نبھائی تھیں۔لیکن جب وہ ریاست ہندوستان کا حصہ بن گئی تو وہ پاکستان آگئے۔یہ وہ دور تھا جب زیڈ اے بھٹو نوجوانی میں محمد علی جناح کی صحبت میں رہتے ہوئے تحریک ِپاکستان کے حامی تھے۔پھر جب وہ بیرون ممالک اعلی تعلیم حاصل کر رہے تھے توساتھ میں قیام ِپاکستان کی بقا کیلئے پاکستانی نوجوانوں کو اپنے ملک کیلئے کچھ خاص کرنے کیلئے ترغیب بھی دیتے تھے۔ اسی دوران انہوں نے اپنا بار ایٹ لا مکمل کیا اورکچھ مدت وہاں عملی زندگی کے آغاز کے طور پر یونیورسٹی میں پڑھایا۔ پھر پاکستان واپس آگئے۔زیڈ اے بھٹونے پاکستان میں اپنی عملی زندگی کا آغاز تو وکالت سے ہی کیا لیکن خاندانی سیاست کی وجہ سے جلد ہی حکومتی اراکین سے ملاقاتیں شروع کردیں،یہ ملاقاتیں صدر اسکند مرزا تک جاپہنچیں۔بھٹو کے والد شاہنواز بھٹو کا تعارف سیاسی میدان میں ان کے لئے بڑا مددگار رہا۔پھربھٹو نے اپنی قابلیت کے باعث اسکندر مرزاکواتنا متاثر کیا کہ انہوں نے وزیر ِاعظم حسین شہید سہروردی سے کہہ کر زیڈ اے بھٹو کو وزیر ِ خارجہ فیروز خان نون کے وفد میں شامِل کر کے اقوام ِ متحدہ کے اجلاس میں شرکت کرنے کیلئے امریکہ بھیجا۔جب انہوں نے 25ِ اکتوبر 1957 کو امن عالم اور جارحیت کے موضوع پر خودلکھی ہوئی پہلی تقریر اقوام ِ متحدہ کے اجلاس میں کی تو اس تقریر نے دھوم مچا دی اور غیر ملکی ذرائع ِ ابلاغ نے انکی تقریر کو بہت اہمیت دی۔یہ بھٹو کی کم عمری کی پہلی تقریر تھی۔بعد میں چند اور غیر ملکی دوروں کے دوران بھٹو نے جب وہاں بھی موقع ملنے پر تقاریر کیں تو کہیں تو انکا نام پاکستان کے مستقبل کے فیصلوں کیلئے لکھ لیا گیا۔ایوب حکومت میں پہلے ہی دِن سے انھیں بحیثیت وزیرِتجارت شامل کر لیا گیا اور پھر وہ اپنی محنت اور صلاحتیوں کی بنا پر مختلف وزارتوں کا قلمدان سنبھالتے ہوئے ایوب کابینہ میں وزیر ِخارجہ بن گئے۔یہ انکی پہلی کامیابی تھی جہاں سے انکا پہلا سیاسی دور شروع ہوا جو سانحہِ سقوط ِمشرقی پاکستان پر ختم ہوا۔ تعلیمی دور میں انکے خیالات سوشلسٹ تھے۔حکومت میں آئے تو امریکن اور یورپین خارجہ پالیسی کی پیروی کی لیکن پاکستان کے چین اور روس سے تعلقات استوار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسطرح ایک طرف انھوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے نئے خد وخال تشکیل دینے شروع کیئے اور دوسری طرف انکی اپنی شخصیت اس میں کیموفلاج ہو کر رہ گئی۔زیڈ اے بھٹو کاکشمیر پردِلیرانہ موقف اور1965 کی جنگ میں انکا کردار انھیں پہلی دفعہ عوام کی نظروں میں لے آیا۔صدر ِپاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان اِن حالات میں بھٹوکے خارجی سطح پر اقدامات سے کچھ خائف بھی رہنے لگے لیکن وہ سب بھٹوکا ساتھ اہم بھی سمجھتے تھے۔بھٹو نے جب خارجی معاملات پر اپنی گرفت مضبوط کر لی تو اب انھوں نے داخلی سطح پر مشرقی پاکستان کی سیاست کی طرف رخ کیا۔حسین شہید سہروردی سے لیکر انکے تمام بنگالی سیاست دانوں سے رابطے رہتے تھے۔لیکن جب مجیب الرحمان نے عوامی لیگ کی قیادت سنبھالی تو مشرقی پاکستان میں صوبائیت کو ایک ایسی نئی ہوا ملی جس میں مغربی پاکستان کے خلاف نفرت اور بنگلہ دیشیوں کو صر ف احساس ِمحرومیت کا سبق پڑھایا گیا۔ملکی سطح پر 1965 کی جنگ کے بعد جب پاکستان اِنڈیا کے درمیان تعلقات بحالی کیلئے روس نے تاشقند معاہدہ کراونے میں اہم کردار ادا کیا تو اس معاہدے کو جنگ کی فتح کو میزپر ہارنے کے مترادف سمجھا گیا۔وزیر خارجہ بھٹو نے اختلاف کرتے ہوئے ایوب کابینہ سے استعفی دے دیا۔اسٹیج تیار تھا ملکی سطح پر تاشقند معاہدہ کا اور صوبائی سطح پر مشرقی پاکستان کی محرومیوں کا۔ لیڈر تھے عوامی لیگ کے مجیب الرحمان اور نئی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے بھٹو۔ موخرالذکر کے تعلقات کھلم کھلا بیرونی طاقتوں سے اوراول الذکر پر خفیہ طور پر بیرونی طاقتوں کی سرپرستی۔ایک نے دنیا میں اپنی شناخت کو بحال کر نے کا نعرہ لگا کر اور دوسرے مجیب الرحمان نے مشرقی پاکستان کی اہمیت کو قومی سطح پر منوانے کیلئے چھے نکات پیش کر کے پاکستانی عوام کو ہلا کر رکھ دیا۔ایوب حکومت سے دونوں کا یہ رویہ برداشت نہ ہوا اور جیل میں ڈال دیا۔بھٹو تو چند روز بعدرہا ہو گئے لیکن مجیب الرحمان تقریبا دو سال قید رہے۔لیکن قید و بند نے ان دونوں کو مغربی و مشرقی پاکستان میں اپنے اپنے رہنماﺅں کے طور پر ایسا مقبول کر دیاکہ وہ ایوب مخالف تحریک میں صدر ایوب خان کو لے گئے۔ لیکن ایوب خان جاتے ہوئے اپنی جمہوریت کی کشتی بذات ِخود ہی ڈبو کر ایک مرتبہ پھر ملک کو آمریت میں جھونک گئے۔صدر و مارشل لا ایڈ منسٹریٹر جنرل یحیی خان نے حکومت سنبھالی تو سیاسی حالات بہت خراب تھے۔ لہذا انھوں نے جو بہت سے قابلِ تعریف اقدامات کیئے ان میں سے سب سے اہم دسمبر1970 میں ملک بھر میں واقعی تاریخ کے منصفانہ انتخابات منعقد کروا ڈالے۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے 169نشستوں میں 167نشستیں جیت لیں۔مجیب الرحمان کے چھے نکات نے آخر کار اپنا کام کر دِکھایا تھا۔ مغربی پاکستان میں بھی غیر متوقع نتائج سامنے آئے۔ اس حصے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بھٹو نے انتخابات کی مہم میں روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تھا۔ لہذا انکی سیاسی جماعت4 14 نشستوں میں سے 86 نشستیں جیت کر مغربی پاکستان کی اکثریتی پارٹی بن گئی۔دونوں صوبوں میں خواتین کی نشستیں ملا کر۔ لیکن دِلچسپ یہ تھا کہ دونوں سیاسی جماعتوں کو دونوں مخالف صوبوں میں ایک بھی نشست نہ ملی۔صدر و مارشل لا ایڈ منسٹریٹر جنرل یحیی خان جیسی طاقت ور شخصیت یہ نتائج دیکھ کر کمزور پڑ گئی اور دوسری طرف بھٹو مجیب میں حکومت سازی کے طریقے کارپر ٹھن گئی۔ مشرقی پاکستان کے رہنماﺅں نے ایک دفعہ پھر وہاں عوام کو احساس دِلوانے میں کامیابی حاصل کر لی کہ مغربی پاکستان والے اقتدار مشرقی پاکستان والوں کو دینا ہی نہیں چاہتے۔اِن حالات میں بھٹو نے مجیب ادھر تم اِ دھر ہم کہہ دیا۔ صدر یحیی خان چاہتے تو وہ ایک حکم سے اکثریتی جماعت کے لیڈر کو حکومت بنانے کی دعوت دے سکتے تھے۔بلکہ وقت پر دے دیتے تو حالات بہت فرق ہوتے۔لیکن انھوں نے حیران کن انداز میں جمہوریت کیلئے انتخابات کروا کر آمرانہ رویہ اختیا ر کر لیا اورمشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن کروا دیا۔ 27ِ مارچ 1971 کو پاکستانی فوج نے مجیب الرحمان کو گرفتار کر کے بغاوت کے اِلزام میں جیل بھیج دیا۔اِنڈیاکی حکومت نے پاکستان کے ان حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سرحدی خلاف ورزیاں شروع کر دیں اور پھر دسمبر1971 میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ کا نتیجہ سقوط ِمشرقی پاکستان یا سقوط ِڈھاکہ نکلا۔روس نے ایک مسودہ ِقرار داد سلامتی کونسل میں پیش کیا جس میں مشرقی پاکستان میں سیاسی سمجھوتے کا مطالبہ کیا گیا۔ پولینڈ نے اس قرارداد کی حمایت کی لیکن پھر روس نے ہی جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کر دی۔جب امریکہ نے جنگ بندی کی قرارداد پیش کی تو روس نے اسکو بھی ویٹو کر دیا۔ 1971 کی جنگ کے آغاز میں ہی صدر یحیی خان نے بھٹو کو نائب وزیر ِاعظم و وزیر ِ خارجہ کا عہدہ دے دیا تھا۔ لہذا وہ جنگ بندی کے سلسلے میں اقوام ِمتحدہ پہنچے اور اِنڈیا اورروس کا گٹھ جوڑ دیکھ کر سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اِنڈیا کو برصغیر کا چوہدری نہیں بننے دیا جائے گا۔ انھوں نے پولینڈ کی قرارداد سلامتی کونسل میں پھاڑ ڈالی اور واک آﺅٹ کر گئے لیکن تب تک ہر فیصلے میں دیر ہو چکی تھی۔اپنوں کی سازشوں اور غیروں کی طرفدارانہ اور مخالفانہ رویئے نے بھٹو مجیب کے ہاتھوں پاکستان کو دو ٹکڑے کروا دیا۔ صدر جنرل یحیی خان اور فوج ڈنکے کی چوٹ پر ایک جمہوری حکومت کے قیام کافیصلہ نہ کر سکی۔اِنڈیا کی اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان کی شکست کے بعد اِن متکبرانہ الفاظ کے ساتھ اظہار خیال کیا، ہم نے ہزار سال کا بدلہ لے لیا ہے اور ہم نے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے۔امریکہ،روس اور چین سب کو معلوم تھا پاکستان میں کیا ہو رہا ہے اور کون کس طرح اپنے مہروں سے اپنی طاقت کا مظاہرہ کروائے گا۔ان تمام معاملات سے ہمیشہ کی طرح بے خبر تھی تو وہ تھی پاکستانی عوام۔ کیونکہ سقوط ِمشرقی پاکستان کے پیچھے خفیہ ہاتھ کس کا تھا؟ تاریخی بحث سے زیادہ کچھ نہ رہا تھااور عوام اپنی اپنی پسندیدہ سیاسی شخصیات کے سحر میں انکے حق میں دلائل دے رہے تھے اور دیتے رہیں گے۔